Pakistani flag Embassy of Pakistan in Tehran

AddressBlock No. 1, Koocha-e-Ahmed Etimadzadeh, Khayaban-e- Dr. Hussain Fatmi
Jamshedabad Shomali
Tehran 14118
Iran
Phonelocal: (021) 6694.1388
international: +98.21.6694.1388
Faxlocal: (021) 6694.4898
international: +98.21.6694.4898
Emailpareptehran@yahoo.com
Web sitehttp://www.pareptehran.org/

Comments on this Embassy

muslim abbas
Mon, 25 Nov 2013 01:25 EST
شکایت
سلام ۔تہران میں پاکستان ایمبیسی میں ملازم فخرالدین بہت زیاد بدتمیزی اور بداخلاقی کرتا ہے گزارش ہے کہ اس شخص کو معطل کیا جاے۔تفصیلات کے لیے اس نمبر پر رجوع کریں
00989198674915
شکریہ
muslim abbas
Thu, 21 Nov 2013 03:04 EST
اپیل
سلام۔پاکستان ایمبیسی تہران میں جانے کا اتفاق ہوا۔تو وہاں فخرالدین صاحب کی زیارت ہوئی جو ایک پاگل ،بداخلاق آدمی ہے،ہر آدمی سے وہ بداخلاقی کرتا ہے۔باقی کام کرنے والے افراد اچھے تھے میری اپیل ہے کہ اس بداخلاق ادمی کو جاڑو لگانے کا کام دیا جاے انسانوں کو ڈیل کرنے کا یہ اہل نہِں ہے ایسے افراد کو ایمبیسی میں رکھ کر پاکستان کی بے عزتی نہ کروائں۔شکریہ
waqas ahmad
Sun, 10 Nov 2013 07:40 EST
appeciated
slam to the head of pakistan embassy in zehdan adel khan the most respectfull kind person in my life till now may allah bless him
syed ameer naqvi
Sun, 3 Nov 2013 05:37 EST
تہران میں پاکستان ایمبیسی
میری ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناطے تہران میں قائم
پاکستان ایمبیسی کے اعلی حکام سے اپیل ہے کہ خدا را اصلاح احوال پر توجہ دیجئے۔میں کل ایمبیسی گیا تھا،انتہائی شرمناک صورتحال ہے۔میں نے وہ کچھ دیکھاہے کہ لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔امید ہے کہ اعلی احکام میری گزارش پر توجہ دیں گے اور سر جی کی کارکردگی کو چیک کریں گے۔
اپ سب کے لئے دگا گو امیر نقوی
imran malik
Sat, 28 Sep 2013 09:59 EDT
I NO
salam
saghir chishti
Sun, 11 Aug 2013 14:51 EDT
job requried
i look forword for a job in pakistan embassy
i have more then 5 year teaching experine in teaching specially in english subject
if there is any vacancy releated this plz contact me on 00923244401302
urs sincer,
saghir chishti
syed qasim kazmi
Tue, 16 Jul 2013 18:52 EDT
پاکستان ایمبیسی اور رمضان پیکج
بلا تبصرہ
پاکستان ایمبیسی اور رمضان پیکج
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@yahoo.com

ہمارے پورے ملک میں رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی اجتماعی افطاری کی مہم شروع ہوچکی ہے، مسجدوں میں نئی صفیں بچھ چکی ہیں اور نئے واٹر کولرز لگ چکے ہیں، عید الفطر اور فطرانے کے لئے چہ مہ گوئیاں بھی شروع ہوچکی ہیں، ختمِ قرآن اور تلاوتِ قرآن کے بارے میں ہر طرف سے تاکید سننے کو مل رہی ہے، اکثر لوگوں کے سروں پر ٹوپیاں اور ہاتھوں میں تسبیح نظر آتی ہے، ایک دوسرے کو افطاری کی دعوت دینے کے لئے پروگرام مرتب ہوچکے ہیں، پکوڑے اور سموسے والوں کے چولہے پھر سے روشن ہوچکے ہیں، اب ہر روز مسجدیں نمازیوں سے کچھا کھچ بھر جاتی ہیں، دفتری اوقات میں کمی کر دی گئی ہے، اعتکاف کے سلسلے میں تگ و دو شروع ہے۔۔۔

ایسے میں تہران میں قائم ہماری پاکستان ایمبیسی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی۔ گذشتہ روز ہمارے کچھ دوستوں نے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان ایمبیسی نے پاکستانیوں کے لئے ایک خصوصی پیکیج کا اعلان کیا ہے اور وہ ہے "قسمت پیکج" ہم نے پوچھا کہ یہ قسمت پیکج کیا ہے؟ کہنے لگے کہ اب اگر آپ فون کرکے ایمبیسی سے پوچھیں کہ ہمارا پاسپورٹ بن چکا ہے یا نہیں تو ایمبیسی سے "سرجی" جواب دیتے ہیں کہ یہاں آکر لائن میں کھڑے ہوجائیں، جب آپ کی باری آئے گی تو ہم آپ کو بتا دیں گے کہ آپ کا پاسپورٹ بن گیا ہے یا نہیں۔ اگر بن گیا تو آپ کی قسمت اور اگر نہ بنا تو بھی آپ کی قسمت۔ یعنی ماہِ مبارک رمضان میں آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ فون پر معلومات حاصل کرنے کے بجائے خون پسینہ کاڑھ کر ایمبیسی جائیں اور وہاں دفتری ٹائمنگ پوری کریں، اس کے بعد آپ کی قسمت پر منحصر ہے کہ آپ کا پاسپورٹ آپ کو ملتا ہے یا نہیں۔ تجربے کے لئے ہم نے بھی ایمبیسی فون کیا اور ہمیں بھی یہی جواب ملا کہ آپ تشریف لے آئیں اور اپنی قسمت آزمائیں۔

ہماری تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ رمضان المبارک میں گرمی اور پیاس میں نڈھال ہوکر سینکڑوں میل کا فاصلہ طے کرکے قسمت آزمائی کرنے سے بہتر ہے کہ اپنے ارد گرد استخارے اور فال نامے والے احباب ڈھونڈیں اور ان کی خدمات حاصل کریں۔ البتہ ہم یہ بھی عرض کئے دیتے ہیں کہ کسی بھی سرکاری ادارے کا کوئی بھی ملازم اس وقت ایسا رویہ اختیار کرتا ہے، جب اسے اوپر سے گرین سگنل دیا جاتا ہے۔ ورنہ ہر ملازم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسے تنخواہ ہی کام کرنے کی دی جاتی ہے اور سستی، کوتاہی یا بدتمیزی کرنے پر وہ حکام بالا کے سامنے جوابدہ ہے۔

پاکستان ایمبیسی کے ملازمین کا پاکستانیوں کے ساتھ گذشتہ چند برسوں پر مشتمل یہ افسوسناک رویہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ماہ مبارک میں بھی ایمبیسی کے اس معاندانہ رویے کی پاکستان و ایران میں مذمت کی جائے، ماہ مبارک کے اجتماعات میں اس حوالے سے احتجاج کیا جائے، لٹریچر تقسیم کیا جائے اور بھرپور تحریک چلائی جائے۔ ہمیں امید ہے کہ اگر حکام بالا کو موثر طریقے اس بارے میں متوجہ کیا جائے تو حکام بالا اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں گے اور برسوں کا یہ مسئلہ چند دنوں میں حل ہو جائے گا۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے اور ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ امیرِ شہر کو اونچا سنائی دیتا ہے۔
habib ali
Mon, 8 Jul 2013 08:36 EDT
رشوت رشوت رشوت
تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی کے اہلکار کیا ادنٰی اور کیا اعلٰی سب اپنی اپنی دھن میں لگے ہیں اور مخلوقِ خدا پر کیا بیت رہی ہے، اس کا کسی کو احساس ہی نہیں، لوگوں کے فارم نامکمل ہونے کا ڈرامہ تو سب کو معلوم ہے لیکن یہ فارم کیوں پورا پورا دن نامکمل رہتے ہیں۔
کسی دوسرے ملک میں ایمبسی وہ جگہ ہوتی ہے جہاں صرف صاحب ایمبیسی کے ملک کا قانون لاگو ہوتا ہے۔
آپ دوست خوب جانتے ہیں کہ پاکستان میں سب سے بڑا آقا رشوت ہے جو ناممکن کاموں کو بھی آسان بنا دیتا ہے۔
تو ایران میں رہنے والوں کو رشوت کیا پتہ اور بالخصوص یہ سب اسٹودنٹ جو دین سیکھ رہے ہیں۔
پنڈو کی مشکل نہیں بلکہ اس نظام کی مشکل ہے جس میں وہ پینڈو پروان چڑھا ہے، وہ چکر کس لئے لگوانا چاہتا ہے۔ جب اسے پاکستان کی سوچ آتی ہے تو فارم واپس کر دیتا ہے کہ آپ خود حل کریں اور جب اپنے پیٹ بچون کی سوچ آتی ہوگی تو غلط راستوں سے پیسہ بٹورنے کی کوشش کرتا ہوگا۔
جیسے یہ اسٹوڈنٹ حرام سمجھتے ہیں اور یہاں پر سب معاملہ خراب ہو جاتا ہے۔
Muhmmad Ali
Tue, 2 Jul 2013 04:32 EDT
پاکستان ایمبیسی اور قحط الرّجال
پاکستان ایمبیسی اور قحط الرّجال
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@yahoo.com

اداروں کا حُسن پڑھے لکھے، باصلاحیت اور تجربہ کار افراد سے ہوتا ہے۔ بھلے وقتوں کی بات ہے کہ مختار مسعود تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی میں اپنے فرائض منصبی انجام دیا کرتے تھے۔ موصوف کے والد ِ گرامی علی گڑھ یونیورسٹی میں معاشیات کے استاد تھے اور موصوف خود بھی علی گڑھ یونیورسٹی کے ہی تعلیم یافتہ تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد انہیں کئی اہم سرکاری عہدوں پر تعینات ہونے کا موقع ملا اور ملت پاکستان کی خدمت کے سلسلے میں انہیں کئی ممالک میں اپنے فرائض انجام دینے کا موقع ملا۔ انہوں نے سرکاری اداروں کے اندر صرف وقت نہیں گزارا بلکہ اپنی تعلیم و تجربے کو ملت کی خدمت کے لئے صرف کیا اور اپنے مشاہدات و تجربات کو تاریخ، ادب اور فن کے سانچے میں ڈھال کر لوحِ ایّام، آوازِ دوست اور سفرِ نصیب کے نام سے تین کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی ہر کتاب علمی و فنّی اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے اور علم و ادب کا خزانہ شمار ہوتی ہے۔

لوحِ ایّام میں انہوں نے ایران میں اپنے قیام کے دوران مختلف تجربات و مشاہدات اور انقلاب اسلامی کی آمد کے اپنی آنکھوں دیکھے واقعات کو جس دلکشی اور ہنر سے بیان کیا ہے، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اسی طرح سفرِ نصیب میں انہوں نے حالات و واقعات کی جو منظرنگاری کی ہے اور منظر نگاری کے دوران جو پیغامات دئیے ہیں وہ ہمارا ملّی سرمایہ ہیں۔ آوازِ دوست کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کتاب میں جس طرح ادب، فلسفے اور تاریخ کو ایک دوسرے کے ساتھ پیوست کرکے پیش کیا گیا ہے، اس سے پہلے ایسی مثال نہیں ملتی ، ”آواز دوست“ کے مضامین ہمہ پہلو اور ہمہ جہت ہیں۔ صاحبانِ اردو زبان اور خصوصاً اہلیان پاکستان کی آئندہ نسلیں ان سفر ناموں کی روشنی میں اپنے ماضی، حال اور مستقبل کا خاکہ شفاف انداز میں دیکھ سکتی ہیں۔

وہ صرف لکھتے نہیں تھے بلکہ اپنے معاشرتی تجربے کو فکر کی سانچ پر پرکھ کر الفاظ کے موتیوں میں پرو دیتے تھے۔ مثال کے طور پر ان کی کتاب سفرِ نصیب سے ان کا ایک جملہ ملاحظہ فرمائیں: "غلامی کی بے شمار قسمیں اور طرح طرح کی شکلیں ہوا کرتی ہیں، گمراہی غلامی کی بدترین صورت ہے، اگر آزاد ہونے کے بعد بھی صحیح راستہ کا پتہ نہ چلے اور اگر چلے تو اس پر چلنے کی ہمت نہ ہو تو یہ صورت غلامی سے بدرجہا بدتر ہوتی ہے۔" اسی طرح ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ "زندگی کے تعاقب میں رہنے والے قحط سے زیادہ قحط الرّجال کا غم کھاتے ہیں۔" مختار مسعود نے بھی قحط الرّجال کا بہت غم کھایا اور شاید یہی وجہ ہے کہ آوازِ دوست کا طویل ترین مضمون قحط الرّجال ہی ہے۔

ڈاکٹر ظہور احمد اعوان نے ایک جگہ پر مختار مسعود کے قحط الرّجال کے احساس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ "1971.72ء تک پہنچتے پہنچتے پاکستان میں بڑے آدمی بننا بند ہوگئے تھے۔ بڑے آدمی سبھی 1947ء سے پہلے بن چکے تھے, اس کے بعد ٹوٹنے کا عمل شروع ہو گیا تھا۔" اسی طرح پاکستان کی بیوروکریسی کی تاریخ میں آب کوثر، رود کوثر اور موج کوثر کے مصنف شیخ محمد اکرم جیسے صاحبانِ علم و دانش کا ایک بڑا نام اور مقام ہے۔ جیسے جیسے ہم قیام ِ پاکستان سے دور ہوتے جا رہے ہیں, ہمارے ہاں تمام شعبوں میں خصوصاً بیوروکریسی کے شعبے میں "قحط الرّجال" کا احساس شدت سے زور پکڑتا جاتا ہے۔

میں ایک طالب علم ہوں اور اس زمانے کی پیداوار ہوں کہ جب سے پاکستان میں بڑے آدمی بننا بند ہوگئے تھے۔ میں نے بڑے آدمیوں کو زیادہ تر کتابوں میں ہی پایا ہے۔ مجھے بچپن سے ہی مختار مسعود اور شیخ محمد اکرم جیسے لکھاریوں سے قلبی لگاو رہا ہے اور اب جب کسی سرکاری ادارے میں قدم رکھتا ہوں اور اس کے اہلکاروں کو دیکھتا ہوں تو ایک خواب میں چلا جاتا ہوں اور ایک عجیب احساس کے ساتھ سوچتا ہوں کہ صرف چند سال پہلے تک ان اداروں میں کیسے کیسے علم دوست اور انسانیت پرور لوگ ملت پاکستان کی خدمت کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہتے تھے۔ وہ زمانہ بھی کیا زمانہ تھا جب سرکاری دفاتر کے اہلکاروں کو یقین ہوتا تھا کہ انہیں ملت کی خدمت کے عوض تنخواہیں دی جاتی ہیں، جب سرکاری آفیسرز اپنے آپ کو ملت کا خادم سمجھتے تھے اور جب ملت کی سہولت اور آسائش کو مدّنظر رکھر قانون بنائے جاتے تھے۔

مجھے چند دن پہلے تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی میں ایک صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا، جنہیں پیاس اور گرمی نے ستا رکھا تھا اور انہیں چودہ دن کے بعد یہ اطلاع دی گئی تھی کہ آپ کے فارم ناقص ہیں، لہذا دوبارہ تشریف لائیں۔ وہ صاحب کہنے لگے کہ وہ اس زمانے میں بھی اس ایمبیسی آئے تھے جب یہاں کا عملہ بااخلاق، چوکس اور اپنے کام کاماہر ہوتا تھا، لیکن اب گذشتہ چند سالوں سے ہر روز لوگوں کو ذلیل کیا جاتا ہے۔ خصوصاً جو لوگ پہلی مرتبہ ایمبیسی آتے ہیں انہیں پورا دن ایمبیسی میں بٹھا کر ٹائمنگ پوری کی جاتی ہے اور پھر فارم دے کر واپس بھیج دیا جاتا ہے اور انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ چند بار ایمبیسی کے چکر لگائیں۔ میں نے پوچھا ایسا کیوں ہے، وہ بولے ایسا اس لئے ہے کہ جب تعلیم و تجربے اور میرٹ کو نظر انداز کرکے لوگوں کو بھرتی کر لیا جائے اور انہیں پبلک ڈیلنگ پر مامور کیا جائے تو وہ ایسا ہی کریں گے۔ اگر ایمبیسی میں پبلک ڈیلنگ کے لئے ایک تعلیم یافتہ اور تجربہ کار شخص کو بٹھا دیا جائے تو پورے دن میں کیا سات آٹھ فارم یا زیادہ سے زیادہ دس فارم پُر کرنا کوئی مشکل کام ہے۔

انہوں نے یہ کہا تو مجھے مختار مسعود کا یہ جملہ یاد آگیا کہ "غلامی کی بے شمار قسمیں اور طرح طرح کی شکلیں ہوا کرتی ہیں، گمراہی غلامی کی بدترین صورت ہے، اگر آزاد ہونے کے بعد بھی صحیح راستے کا پتہ نہ چلے اور اگر چلے تو اس پر چلنے کی ہمت نہ ہو تو یہ صورت غلامی سے بدرجہا بدتر ہوتی ہے۔" ہم غلامی کی بدترین صورت میں جی رہے ہیں۔ ہم اپنے ہی ملکی اور سرکاری اداروں میں چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے سر پٹختے ہیں، چیختے اور چلاتے ہیں لیکن کہیں ہماری شنوائی نہیں ہوتی۔ تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی کے اہلکار کیا ادنٰی اور کیا اعلٰی سب اپنی اپنی دھن میں لگے ہیں اور مخلوقِ خدا پر کیا بیت رہی ہے، اس کا کسی کو احساس ہی نہیں، لوگوں کے فارم نامکمل ہونے کا ڈرامہ تو سب کو معلوم ہے لیکن یہ فارم کیوں پورا پورا دن نامکمل رہتے ہیں اور تین تین چکر لگانے کے باوجود پُر نہیں ہوتے، اس بارے میں کوئی نہیں پوچھتا۔ قحط الرّجال کے اس دور میں کیا پاکستان ایمبیسی میں ایک ذمہ دار آفیسر بھی نہیں رہا جو اپنی ملت کو اس ذلت سے نجات دلائے اور نااہل کو اہل اور بداخلاق کو خوش اخلاق کی جگہ سے ہٹائے۔
tahaa jaffari
Thu, 27 Jun 2013 03:04 EDT
پاکستان ایمبیسی کے اعلی حکام سے اپیل
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پاکستان ایمبیسی کے اعلی حکام سے اپیل
میں سب سے پہلے تو ان تمام دوستوں کا خصوصا برادر گرامی القدر جناب نذر حافی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی کے حوالے سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیامیں آوز اٹھائی۔ میں کل مورخہ ۲۶جون ۲۰۱۳ بروز بدھ کو پاکستان ایمبیسی گیا تھا۔وہاں صورتحال یہہے کہ آج سب سے پہلے تو"سرجی" نے ایک آدمی کے ساتھ اس کی بیٹی کے بارے میں بد اخلاقی کی۔جس پر وہ صاحب آگ بگولہ ہوگئے۔باقی لوگوں نے بیچ میں آکر مسئلے کو ٹھنڈاکیا۔انہیں "سر جی" کہہ رہے تھے کہ آپ کاکام بالکل غیرقانونی ہے اور نہیں ہوسکتا جائیں بیٹی کو گولی ماردیں۔جب یہ مسئلہ گرم ہوگیا اور لوگوں نے اس بد اخلاقی پر شور مچایا تو پھر "سرجی" نے صرف انہی صاحب کاکام انجام دیا حالانکہ پہلے ان کا کہنا تھا کہ یہ کام ہی غیر قانونی ہے۔
ان صاحب کے علاوہہم صرف ۸آدمی تھے۔نو بجے سے ڈیڑھ بجے تک ہم آٹھ آدمیوں کو "سرجی" نے ہمیں وہاں اُلّو بنا ئے رکھا اورکسی ایک آدمی کا بھی کام نہیں کیا۔
ہم آٹھ آدمی بیوی بچوں سمیت ایمبیسی میں ناک رگڑ تے رگڑتے تنگ آگئے تو ہم نے" سرجی "سے کہا کہ آپ ہمیں فارم تو دیدیں۔منتیں ترلے کر کے انہوں نے تقریبا ۱۱ بجے فارم دیے اور کہنے لگے کہ دیکھیں میرے سر پر کتنا بوجھ ہے۔آپ جائیں اوپر جاکر ایک درخوست جمع کرائیں کہ سر جی کے سرپر بہت بوجھ ہے وہ اکیلے اتنا کام نہیں کرسکتے۔
یہ سن کر کچھ لوگوں نے کہاکہ اگر اس طرح ہمارا مسئلہ حل ہوتاہے تو ٹھیک ہے ہم جاکر درخواست جمع کرواآتے ہیں۔ چنانچہ سرجی کے کہنے پر کچھ لوگوں نے جاکربدھ ۲۶جون ۲۰۱۳ کو یہ درخواست بھی جمع کرائی ہے کہ سر جی کے ساتھ عملہ بڑھایاجائے حالانکہ عملہ بڑھانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔
ارباب حل و عقد اگر اس مسئلے کو سمجھنا چاہیں اور اسے حل کرنا چاہیں تو ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ بات صرف اتنی ہے کہ ایمبیسی میں لوگوں کو ڈیل کرنے والے متعلقہ شخص کو فارم پر کرانے کا ٹیکنیکل طریقہ نہیں آتا۔
خود ایمبیسی کے حکام کو سمجھنا چاہیے کہ آخر کیاوجہ ہے کہ لوگوں کے فارم ہرروز ناقص رہ جاتے ہیں اور انہیں باربار ایمبیسی کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔
اگر ایک شخص کا فارم بھی صحیح پر ہوجائے تو باقی لوگ اسے دیکھ کر بھی پر کر سکتے ہیں لیکن کسی ایک آدمی کو بھی "سرجی" کی بات سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ خود "سرجی" نفسیاتی طور پر بیمار آدمی ہیں ،وہ بات کر ہی نہیں پاتے،جب بات سمجھانے لگتے ہیں تو خبط الحواسی کے شکار ہوجاتے ہیں،جس کی وجہ سے وہ اپنی بات سمجھا ہی نہیں سکتے۔
ہمارے اداروں کو چاہیے کہ وہ سال میں ایک آدھ مرتبہ اپنے ملازمین کا میڈیکل ٹیسٹ کروائیں اور یہ کوئی بر ی بات بھی نہیں۔
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ تہران میں قائم ایمبیسی کا نچلا اسٹاف مکمل طور پر "پینڈو "ہے۔یہ لوگ بظاہر تو پینٹ شرٹ اور ٹائی لگا کر آتے ہیں،کریم کا بھی خوب استعمال کرتے ہیں لیکن ان کی انگلش اور اردو اگر آپ سُن لیں تو جہالت اپنا سر پٹخ پٹخ کر روتی ہے۔خصوصا جب یہ کسی غیر ملکی کے ساتھ انگلش بولنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان میں پڑھے لکھے اور مہذب لوگوں کی کمی نہیں ہے۔میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہتا ہوں کہ پاکستان ایمبیسی والے صرف ایک پڑھے لکھے اور تجربہ کار، تازہ دم جوان کو پبلک ڈیلنگ کے لئے بٹھا دیں اور اسے یہ سمجھادیں کہ فارم کا ناقص رہ جانا اس کی ناقص کرکردگی شمار ہوگی۔بس پھر آپ دیکھیں ،سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔
لیکن اگر ایک پینڈو کی جگہ دس پینڈو مزید رکھ دئے جائیں تو صورتحال میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ہم یہ بھی بتا دیں کہ کل ہم نے قریب سے دیکھا ہے کہ ایران والوں کے لئے ایمبیسی نے الگ آدمی تو بٹھا دیاہے لیکن وہ بھی پینڈو ہونے میں ہمارے سر جی سے بالکل مختلف نہیں ہے۔وہ بھی ایرانیوں کو ویسے ہی ذلیل کرتاہے جیسے سر جی پاکستانیوں کو۔پتہ نہیں ہمارے ایمبیسٹر صاحب کو ایسے ہیرے کہاں سے مل جاتے ہیں۔
میری آخر میں ایمبیسی کے اعلی حکام سے گزارش ہے کہ کسی بھی ادارے کا اسٹاف اس کا حُسن ہوتا ہے۔خصوصا آج کے ترقی یافتہ دور میں پینڈو اسٹاف سے ملک و قوم کی بے عزتی ہوتی ہے۔
خدارا محنتی،تعلیم یافتہ اور تجربہ کار صرف اور صرف " دوافراد "لے آئیں اور ہم سب کی دعائیں لیں۔ان پینڈو افراد سے ایرانیوں کی بھی اور ہماری بھی جان چھڑوائیں۔اسی طرح میری تمام طالب علم دوستوں اور صحافت سے وابستہ تمام خواہران و برادران خصوصا برادر نذر حافی صاحب سے اپیل ہے کہ اگر ایک آدھ ہفتے میں یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا تو براہِ مہربانی اس مسئلے کوپریس میں بھرپور طریقے سے لائیں اور وزیر اعظم،صدر پاکستان اور وزیر داخلہ تک اس آوز کو پہنچائیں۔

Post a comment on this page

We invite you to share your experiences with the Pakistani Embassy — obtaining visas and other services, locating the building, and so on. Your comments may be seen by the public, so please do not include private information.

Your name
Headline
Your message
Max 2000 characters
 

This web site is not operated by the Embassy and your comments and questions will not necessarily be seen by its staff. Please note that this is not a forum for broad debate about the foreign policy of Pakistan, and such topics will be deleted.